top of page

ڪہا تھا نا

  • Writer: tariq malik
    tariq malik
  • Mar 29, 2020
  • 1 min read

کہا تھا نا کہ آنکھوں کی

یہ اذنِ گفتگو اِک دن

پسِ دیوار گلیوں میں

ذلیل و خوار کردے گی


کہا تھا نا کہ رُتبے میں

یہاں ہر خوبرو تجھ سے

معزّز بھی ہے سچا بھی

اور اُن کا قد بھی اونچا ہے


کہا تھا نا امیدوں سے

خود ہی اک فاصلہ رکھنا

اور اپنے درد کی ہانڈی

کو دھیمی آنچ پر رکھنا


کہا تھا نا مقدّر کے

گھنے سایوں کی سازش سے

یہ آنکھوں کے دیے آخر

اچانک جِلملائیں گے


کہا تھا نا یہ آنکھیں ہی

زبانِ حال سے اک دن

صدائے العتش دے کر

خود ہی خود بھیگ جائیں گی


کہا تھا نا کہ آنکھیں ہی

کہیں گی یہ متانت سے

تمہاری مسکراہٹ سے

اور قدموں کی آہٹ سے

محبت کی حِلاوت سے

اور جزبوں کی تمازت سے

ہماری جوت باقی ہے

اور امید قائم ہے


کہا تھا نا کہ آنکھیں ہی

تمھیں اخبار کردیں گی

حدودِ ذات سے باہر

گھروندہ اِک بنائیں گی


کہا تھا نا بتائیں گی

زمانے کے خداؤں سے

دلوں کا میل دھو ڈالو

زباں میں چاشنی بھرلو

تعصب اور نخوت کا

یہ چولہ پھینک کر آؤو

محبت اور اخوت کی

نئی اِک داستاں لکھو

انا کے اس ہمالہ کو

سمندر کی نذر کرلو

اور اپنی بے ثباتی پر

گھڑی بھر غور کرڈالو


کہا تھا نا کہ آخرکار

تِری حسرت بھری نظریں

سِلے ہونٹوں کی خاموشی

پھٹے کپڑوں کی محرومی

یہ پاؤں کے سبھی چھالے

تمہاری داستاں لے کر

ڈھنڈورہ پیٹ آئیں گے۔

او


طارق احمد طارق

 
 
 

Comentarios


Post: Blog2_Post

Subscribe Form

Thanks for submitting!

  • Facebook
  • Twitter
  • LinkedIn

©2020 by Tariq Ahmad Malik. Proudly created with Wix.com

bottom of page